یقین (معنی، مفہوم و فوائد )
شفیق الرحمن عبد الکریم سلفی، بھیونڈی
شریعت اسلامیہ میں ایمان سب سے بڑی دولت ہے جسے اللہ نے اس دولت سے سرفراز کیا اور اسے اسلام کے اوامر ونواہی پر یقین حاصل ہوگیا تو ایسا شخص اس دنیا میں بھی سرخرو ہے اور آخرت میں بھی۔
یقین کے لغوی معنی۔ علم ، کسی چیز کا ادراک اور شک کا زائل ہونا۔
اصطلاحی تعریف۔ علماء کرام نے یقین کی مختلف اصطلاحی تعریفات ذکر کئے ہیں، ان سب کا ماحصل یہ ہیکہ کسی چیز کی اصل پر دل کا مطمئن ہونا وتصدیق کرنا اور اسکے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک نہ ہونا
یقین کہلاتا ہے۔
اقسام یقین۔ یقین کی تین قسمیں ہیں۔
۔1۔ یقین خبر 2۔ یقین دلالت 3۔ یقین مشاہدہ
مراتب یقین۔ یقین کے مراتب ودرجات بھی تین ہیں۔
۔1۔ علم یقین 2۔ عین یقین 3۔ حق یقین
ان تین قسموں کو اللہ نے سورہ تکاثر میں بیان کردیا ہے۔
مثال۔ مراتب یقین کو سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں۔
آپ کسی جگہ دھواں اٹھتے ہوئے دیکھیں تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ وہاں آگ ہے۔ آگ پر یقین کرنا علم یقین ہے۔
پھر آپ اس جگہ پہونچ کر آگ کا مشاہدہ کئے تو یہ عین یقین ہے۔اس کے فورا بعد آگ لمس کئے جسکی وجہ سے آپ نے اس کی شدت اور حرارت کو محسوس کئے تو یہ
حق یقین ہے۔
صحابہ کرام کا یقین۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین اللہ اور اس کے رسول صلعم کی باتوں پر سب سے زیادہ یقین کرنے والے مال و دولت وجان نچھاور کرنے والے تھے۔ تاریخ کے صفحات اس ضمن میں بھرے پڑے ہیں۔چند واقعات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۔1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے سامنے اسراء اور معراج کا تذکرہ کئے تو کفار مکہ نے آپ کی باتوں کی تکذیب کئے ۔ جب ان کی ملاقات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ کیا اب بھی آپ محمد کی باتوں پر یقین کریں گے کہ وہ ایک ہی رات میں اسراء و معراج کرلئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تو میں اس بات پر یقین کرتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں۔
۔2۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات انصاری اور دو قریشی صحابی کے ساتھ الگ تھلگ رہ گئے تھے۔ کافروں کے حملہ آور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آپہونچے تو آپ نے فرمایا کہ کون ہے؟ جو جنت چاہتا ہے یا جنت میں میرا رفیق ہوگا؟۔ ایک انصاری صحابی اٹھ کھڑے ہوئے، حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگے اور وہ شہید ہوگئے۔ پھر حملہ آور بالکل قریب ہوگئے، تو آپ نے وہی بات کہی کہ کون جنت چاہتا یا جنت میں میرا رفیق ہوگا؟ اس طرح باری باری ساتوں صحابی شہید ہوگئے۔ (صحیح مسلم۔ باب غزوة الأحد)
كفارمکہ، یہود و نصاری كا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر یقین۔ یہ لوگ قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودات پر ایمان تو نہیں لائے لیکن کہیں نہ کہیں قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر یقین رکھتے تھے۔اس حوالے سے چند واقعات تحریر کئے جا رہے ہیں۔
۔1۔ سورہ بقرہ میں اللہ نے یہود علماء کے بارے میں ذکر کیا ہے جس وقت یہ لوگ اپنے اعزاء وأقارب سے کہتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ایمان و یقین لے آؤ کیونکہ وہ سچے نبی ہیں اور سچ بات کہتے ہیں۔ تو اللہ نے فرمایا (أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ) کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو اور اس حال میں کہ تم کتابوں کی تلاوت کرتے ہو، کیا پس تم عقل نہیں رکھتے۔(سورہ بقرہ آیت نمبر44
۔2۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ غزوہ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ گھاٹی میں تشریف فرما تھے کہ ابی ابن خلف گھوڑے پر سوار ہوکر آیا اور بلند آواز سے کہا کہ کہاں ہے محمد؟ یا تو وہ آج رہے گا یا میں رہوں گا۔ صحابہ کرام بولے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اجازت دیں تو ہم اس کا کام تمام کردیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اسے آنے دو جب وہ قریب آیا تو آپ نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے ایک تیر لئے اور اسکو جھٹکا دیئے جو آپ کے اردگرد صحابہ تھے دور ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سامنے آئے وہ خود پہنے ہوئے تھا اس کے حلق کے پاس جگہ خالی تھی، آپ نے اسکے حلق پہ ایک تیر مارے، وہ تیر جاکر لگی لیکن اس کے گلے میں کوئی خراش نہیں آیا، وہ چیختا و چلاتا رہا اور بیل کی طرح آوازیں نکالتا اور کہتا کہ محمد نے مجھکو قتل کردیا کیونکہ مکہ میں میرے پاس ایک گھوڑا تھا میں اس کو روز ساڑھے سات کلو دانہ کھلاتا اور اس پر جب میں سوار ہوتا اور محمد ملتے تو میں کہتا تھا کہ اے محمد میں ایک دن اسی گھوڑے پر سوار ہو کر تجھے قتل کروں گا تو وہ جواب دیتے کہ میں ان شاء اللہ ضرور تجھے قتل کروں گا اور اس نے آج مجھے قتل کر ڈالا، اس کے ساتھی اسے ڈھارس دلاتے کہ تجھے تو کچھ نہیں ہوا ہے، وہ راستے بھر بیل کی طرح آواز نکالتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہونچنے سے پہلے مرگیا۔(ماخوذ رحیق المختوم
ان کا یقین لاحاصل ہے کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے۔
ہمارا یقین۔ مسلم سماج و معاشرہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ تحریر کرنی پڑتی ہے کہ اکثر لوگوں کا یقین صحیح معنوں میں قرآن و سنت پر نہیں ہے، ہمارے عقائد، اعمال، بیع وعقود ومعاملات قرآن وسنت کے خلاف ہوتے ہیں۔
ایک مثال۔ اللہ تعالی نے سورہ بقرہ آیت نمبر 276 میں بیان فرمایا ہے کہ (يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
اس آیت کو سامنے رکھکر سوچیں کہ کیا ہمیں اس آیت پر یقین ہے؟ اور اگر یقین ہے تو ہم کیوں اپنا پیسہ ایسی کمپنیوں میں لگاتے ہیں؟ جہاں سودی کاروبار ہوتا ہے یا ایسی تجارت کرتے ہیں جو سود پر مبنی ہوتا ہے۔
فوائد یقین۔ یقین کے بہت سارے فائدے ہیں چند فوائد ذیل میں مرقوم ہیں۔
۔1۔ اہل یقین ہی اللہ کے ہدایت پر ہیں اور ان کے لئے فوز و فلاح ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ * أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [البقرة: 4، 5] اور جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی اور آپ سے پہلے نازل کی گئی اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔
۔2۔ یقین مشکل ترین کاموں کو سہل وآسان بنا دیتا ہے۔ الله كا فرمان ہے (وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ۔ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ). اور تم لوگ صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد طلب کرو اور یہ بھاری ہیں مگر (ان لوگوں پر نہیں) جو خشوع برتتے ہیں، جو لوگ اپنے رب کی ملاقات پر یقین رکھتے ہیں اور بے شک اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (سورہ بقرہ۔45۔46
۔3۔ جب صبر اور یقین کا امتزاج ہوتا ہے تو بڑے بڑے علماء و ائمہ پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا ﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ﴾ [السجدة: 24] اور ہم نے انہیں میں سے اماموں کو بنایا جو ہمارے حکم کے بارے میں ہدایت دیتے ہیں اور یہ اس وجہ سے کہ وہ لوگ صبر کئے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
یقین کہلاتا ہے۔
اقسام یقین۔ یقین کی تین قسمیں ہیں۔
۔1۔ یقین خبر 2۔ یقین دلالت 3۔ یقین مشاہدہ
مراتب یقین۔ یقین کے مراتب ودرجات بھی تین ہیں۔
۔1۔ علم یقین 2۔ عین یقین 3۔ حق یقین
ان تین قسموں کو اللہ نے سورہ تکاثر میں بیان کردیا ہے۔
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ( 1 )
(لوگو) تم کو(مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا
حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ( 2 )
یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ( 3 )
دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا
ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ( 4 )
پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ( 5 )
دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)
لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ( 6 )
تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے
ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ( 7 )
پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے (کہ) عین الیقین (آ جائے گا )
ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ( 8 )
مذکورہ سورت میں غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ دنیا پرست لوگوں کی ہلاکت جہنم پر علم یقین نہ ہونے کی وجہ سے، اسی طرح جب یہ جہنم کو دیکھیں گے تو انہیں عین یقین حاصل ہو گا اور جب اس میں پھینک دیئے جائیں گے تو انہیں حق یقین ہوگا۔
پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی
مثال۔ مراتب یقین کو سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں۔
آپ کسی جگہ دھواں اٹھتے ہوئے دیکھیں تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ وہاں آگ ہے۔ آگ پر یقین کرنا علم یقین ہے۔
پھر آپ اس جگہ پہونچ کر آگ کا مشاہدہ کئے تو یہ عین یقین ہے۔اس کے فورا بعد آگ لمس کئے جسکی وجہ سے آپ نے اس کی شدت اور حرارت کو محسوس کئے تو یہ
حق یقین ہے۔
صحابہ کرام کا یقین۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین اللہ اور اس کے رسول صلعم کی باتوں پر سب سے زیادہ یقین کرنے والے مال و دولت وجان نچھاور کرنے والے تھے۔ تاریخ کے صفحات اس ضمن میں بھرے پڑے ہیں۔چند واقعات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۔1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے سامنے اسراء اور معراج کا تذکرہ کئے تو کفار مکہ نے آپ کی باتوں کی تکذیب کئے ۔ جب ان کی ملاقات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ کیا اب بھی آپ محمد کی باتوں پر یقین کریں گے کہ وہ ایک ہی رات میں اسراء و معراج کرلئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تو میں اس بات پر یقین کرتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں۔
۔2۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات انصاری اور دو قریشی صحابی کے ساتھ الگ تھلگ رہ گئے تھے۔ کافروں کے حملہ آور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آپہونچے تو آپ نے فرمایا کہ کون ہے؟ جو جنت چاہتا ہے یا جنت میں میرا رفیق ہوگا؟۔ ایک انصاری صحابی اٹھ کھڑے ہوئے، حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگے اور وہ شہید ہوگئے۔ پھر حملہ آور بالکل قریب ہوگئے، تو آپ نے وہی بات کہی کہ کون جنت چاہتا یا جنت میں میرا رفیق ہوگا؟ اس طرح باری باری ساتوں صحابی شہید ہوگئے۔ (صحیح مسلم۔ باب غزوة الأحد)
كفارمکہ، یہود و نصاری كا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر یقین۔ یہ لوگ قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودات پر ایمان تو نہیں لائے لیکن کہیں نہ کہیں قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر یقین رکھتے تھے۔اس حوالے سے چند واقعات تحریر کئے جا رہے ہیں۔
۔1۔ سورہ بقرہ میں اللہ نے یہود علماء کے بارے میں ذکر کیا ہے جس وقت یہ لوگ اپنے اعزاء وأقارب سے کہتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ایمان و یقین لے آؤ کیونکہ وہ سچے نبی ہیں اور سچ بات کہتے ہیں۔ تو اللہ نے فرمایا (أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ) کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو اور اس حال میں کہ تم کتابوں کی تلاوت کرتے ہو، کیا پس تم عقل نہیں رکھتے۔(سورہ بقرہ آیت نمبر44
۔2۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ غزوہ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ گھاٹی میں تشریف فرما تھے کہ ابی ابن خلف گھوڑے پر سوار ہوکر آیا اور بلند آواز سے کہا کہ کہاں ہے محمد؟ یا تو وہ آج رہے گا یا میں رہوں گا۔ صحابہ کرام بولے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اجازت دیں تو ہم اس کا کام تمام کردیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اسے آنے دو جب وہ قریب آیا تو آپ نے حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ سے ایک تیر لئے اور اسکو جھٹکا دیئے جو آپ کے اردگرد صحابہ تھے دور ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سامنے آئے وہ خود پہنے ہوئے تھا اس کے حلق کے پاس جگہ خالی تھی، آپ نے اسکے حلق پہ ایک تیر مارے، وہ تیر جاکر لگی لیکن اس کے گلے میں کوئی خراش نہیں آیا، وہ چیختا و چلاتا رہا اور بیل کی طرح آوازیں نکالتا اور کہتا کہ محمد نے مجھکو قتل کردیا کیونکہ مکہ میں میرے پاس ایک گھوڑا تھا میں اس کو روز ساڑھے سات کلو دانہ کھلاتا اور اس پر جب میں سوار ہوتا اور محمد ملتے تو میں کہتا تھا کہ اے محمد میں ایک دن اسی گھوڑے پر سوار ہو کر تجھے قتل کروں گا تو وہ جواب دیتے کہ میں ان شاء اللہ ضرور تجھے قتل کروں گا اور اس نے آج مجھے قتل کر ڈالا، اس کے ساتھی اسے ڈھارس دلاتے کہ تجھے تو کچھ نہیں ہوا ہے، وہ راستے بھر بیل کی طرح آواز نکالتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہونچنے سے پہلے مرگیا۔(ماخوذ رحیق المختوم
ان کا یقین لاحاصل ہے کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے۔
ہمارا یقین۔ مسلم سماج و معاشرہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ تحریر کرنی پڑتی ہے کہ اکثر لوگوں کا یقین صحیح معنوں میں قرآن و سنت پر نہیں ہے، ہمارے عقائد، اعمال، بیع وعقود ومعاملات قرآن وسنت کے خلاف ہوتے ہیں۔
ایک مثال۔ اللہ تعالی نے سورہ بقرہ آیت نمبر 276 میں بیان فرمایا ہے کہ (يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
اس آیت کو سامنے رکھکر سوچیں کہ کیا ہمیں اس آیت پر یقین ہے؟ اور اگر یقین ہے تو ہم کیوں اپنا پیسہ ایسی کمپنیوں میں لگاتے ہیں؟ جہاں سودی کاروبار ہوتا ہے یا ایسی تجارت کرتے ہیں جو سود پر مبنی ہوتا ہے۔
فوائد یقین۔ یقین کے بہت سارے فائدے ہیں چند فوائد ذیل میں مرقوم ہیں۔
۔1۔ اہل یقین ہی اللہ کے ہدایت پر ہیں اور ان کے لئے فوز و فلاح ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ * أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [البقرة: 4، 5] اور جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی اور آپ سے پہلے نازل کی گئی اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔
۔2۔ یقین مشکل ترین کاموں کو سہل وآسان بنا دیتا ہے۔ الله كا فرمان ہے (وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ۔ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ). اور تم لوگ صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد طلب کرو اور یہ بھاری ہیں مگر (ان لوگوں پر نہیں) جو خشوع برتتے ہیں، جو لوگ اپنے رب کی ملاقات پر یقین رکھتے ہیں اور بے شک اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (سورہ بقرہ۔45۔46
۔3۔ جب صبر اور یقین کا امتزاج ہوتا ہے تو بڑے بڑے علماء و ائمہ پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا ﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ﴾ [السجدة: 24] اور ہم نے انہیں میں سے اماموں کو بنایا جو ہمارے حکم کے بارے میں ہدایت دیتے ہیں اور یہ اس وجہ سے کہ وہ لوگ صبر کئے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔
Comments
Post a Comment